جس کی ہر بات میں قہقہہ جذب تھا میں نہ تھا دوستو
جس کی ہر بات میں قہقہہ جذب تھا میں نہ تھا دوستو
وہ جو ہنستا ہنساتا تھا اس شہر میں ہو لیا دوستو
ایک ایک کر کے اہل علم چل دیے شہر ویران ہے
ایک لے دے کے میں بچ رہا ہوں سو مجھ میں ہے کیا دوستو
ایک دو پھول تھے سکھ کے ٹہنی پہ سو وہ بھی مرجھا گئے
ورنہ اس پیڑ پہ ہر سمے ہر طرف رنگ تھا دوستو
با وفا مہرباں سب کے سب شہر سے ہو چکے تھے بدا
جب یہاں آئے تھے ہم وفا مہر کا کال تھا دوستو
ایک لمحے وہ مجھ پاس چپ چاپ سا بیٹھ کر اٹھ گیا
دل سے اٹھتا رہا مدتوں مدتوں شور سا دوستو
ہم ہوس کی طرح عشق کرتے رہے روح بھی جسم بھی
اپنی بیداریوں کا صلہ خواب ہی خواب تھا دوستو
یہ نہ ملنا بھی اک اور احسان ہے بے وفائی نہیں
حال دیکھا نہ جاتا تھا احباب سے اشکؔ کا دوستو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.