جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں
جس کی خاطر عمر گنوائی اک دنیا کو بھولی میں
جی کہتا تھا اس سے کہہ دوں لیکن کیسے کہتی میں
میری ذات کا جس کی نظر سے اتنا گہرا رشتہ ہے
اس کی آنکھ سمندر جیسی ہری بھری اک دھرتی ہے
بند کواڑوں پر اک جانی پہچانی دستک جو سنی
یوں ہی ڈوپٹہ چھوڑ کے بھاگی ننگے پاؤں ہی پگلی میں
کس کا چہرہ دیکھ لیا تھا سوتے سوتے بچپن میں
خوابوں کی خوش رنگ ندی میں برسوں ڈوبی ابھری میں
سب سے بڑا یہ جرم تھا میرا اسی لئے بدنام ہوئی
ساری دنیا جہاں گری تھی اسی موڑ پر سنبھلی میں
یہ بھی سچ ہے ایسے کب تک مل جل کر چل سکتے تھے
کچھ تو وہ بھی تھا ہرجائی تھوڑی سی تھی ضدی میں
یوں ہی شاید جاتے جاتے اس نے ادھر بھی دیکھا ہو
جاڑوں کا موسم تھا لیکن سر سے پا تک بھیگی میں
میرے لئے تو جینے کا یہ ایک سہارا کافی ہے
کوئی چاہے کچھ بھی کہہ لے تیری نظر میں اچھی میں
میری مجبوری نے شبنمؔ جس کو بد ظن کر ڈالا
اس کی قسم تھی جان سے پیاری جھوٹی کیسے کھاتی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.