جس کی کوئی تعبیر نہ ہو وہ خواب دکھانے آ جاتے ہیں
جس کی کوئی تعبیر نہ ہو وہ خواب دکھانے آ جاتے ہیں
آنا چاہیں تو اکثر وہ کسی بہانے آ جاتے ہیں
آتے ہیں تو اور زیادہ پریشان کر جاتے ہیں وہ
لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا جی بہلانے آ جاتے ہیں
رستہ کچھ ہموار تو کچھ دشوار بھی کرتے جاتے ہیں وہ
اک دیوار گرانے تو اک نئی اٹھانے آ جاتے ہیں
بہت سنواری سلجھی ہوئی زلفوں والے دراصل ہماری
الجھی ہوئی طبیعت کو کچھ اور الجھانے آ جاتے ہیں
اپنے آپ کو خوش رکھنے کی کرتے رہتے ہیں کوشش بھی
سوچتے سوچتے دل میں خوف بھی نئے پرانے آ جاتے ہیں
یوں ہے ظفرؔ احباب کی محفل میں اپنا یہ آنا جانا
جو موزوں ہی نہیں ہوئے وہ شعر سنانے آ جاتے ہیں
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 209)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.