جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے
جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے
قطرہ قطرے سے سمندر کا پتہ پوچھتا ہے
ڈھونڈتا رہتا ہوں آئینے میں اکثر خود کو
میرا باہر مرے اندر کا پتہ پوچھتا ہے
ختم ہوتے ہی نہیں سنگ کسی دن اس کے
روز وہ ایک نئے سر کا پتہ پوچھتا ہے
ڈھونڈتے رہتے ہیں سب لوگ لکیروں میں جسے
وہ مقدر بھی سکندر کا پتہ پوچھتا ہے
مسکراتے ہوئے میں بات بدل دیتا ہوں
جب کوئی مجھ سے مرے گھر کا پتہ پوچھتا ہے
در و دیوار ہیں میرے یہ غزل کے مصرعے
کیا سخن ور سے سخن ور کا پتہ پوچھتا ہے
- کتاب : Vajood (Pg. 122)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.