جس کو دیار عشق سے وابستگی ملی
جس کو دیار عشق سے وابستگی ملی
تاریکیوں میں اس کو نئی روشنی ملی
ٹھنڈی تھی جس کے سینے میں ہر آگ دیر سے
نفرت کی آگ مجھ کو وہاں بھی لگی ملی
اپنوں کو چھوڑ دیتے ہیں غیروں کے واسطے
لوگوں میں آج سب سے بڑی یہ کمی ملی
ہر راستے پہ موت کا سایہ تھا دور تک
ہر موڑ پر سسکتی ہوئی زندگی ملی
رشوت تو سارے لوگوں کی امداد ہو گئی
جب سے حوالہ کیس کی ہے ڈائری ملی
حاصل نہیں سکون تو دولت کو کیا کریں
دولت کے ساتھ ہم کو عجب مفلسی ملی
پیسہ ہر ایک چیز کا محور ہے آج کل
دنیا اسی پہ آج مجھے گھومتی ملی
جس نے ارادہ کر لیا نیکی کا راہ میں
منزل ہمیشہ ان کے قدم چومتی ملی
جس نے بنائیں غیروں کی اونچی عمارتیں
رہنے کے واسطے نہ اسے جھونپڑی ملی
گھر آئے سارے دن کی تھکن لے کے اے کششؔ
بچوں کو دیکھتے ہی نئی تازگی ملی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.