جس کو دیکھو جس کو پرکھو لگتا ہے بیگانہ سا
جس کو دیکھو جس کو پرکھو لگتا ہے بیگانہ سا
ماضی کو سب بھول چکے ہیں ماضی ہے افسانہ سا
نازک گردن پتلی کمر تھی چال تھی اس کی متوالی
آنکھیں نرگس کو شرمائیں مکھڑا معصومانہ سا
زلفیں جیسے کالی گھٹا ہو ابرو اس کے خنجر سے
پھول کی پتی لب تھے اس کے قد و قامت میانہ سا
دنداں موتی کی لڑیاں تھیں خال تھا گال پہ ہائے غضب
باتیں اس کی میٹھی میٹھی لہجہ تھا مستانہ سا
سب کچھ تو میں بھول چکا ہوں لیکن یہ کیسے بھولوں
شمع کی صورت وہ تھا ہمدم اور میں تھا پروانہ سا
کیسے کھلیں امید کی کلیاں کیسے وہ رت آئے پھر
کیسے پھلے گا نخل تمنا دل ہو جب ویرانہ سا
کتنی تصویریں ہیں کندہ دل میں کہ بس اللہ اللہ
کچھ کچھ کعبہ سا لگتا ہے کچھ کچھ ہے بت خانہ سا
غیر تو غیر ہے اول و آخر غیر کا کیا شکوہ کیجے
مجھ کو تو اس سوچ نے مارا دل کیوں ہے بیگانہ سا
الجھے الجھے اس کے گیسو چہرے پر وحشت طاری
ایسا لگتا ہے اب خاورؔ جیسے ہو دیوانہ سا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.