جس کو میں چاند سمجھتا تھا دریچہ نکلا
جس کو میں چاند سمجھتا تھا دریچہ نکلا
قید تنہائی میں جینے کا سہارا نکلا
خود جو بے یار و مددگار پڑا تھا سر راہ
وہ مرے واسطے اک پیڑ گھنیرا نکلا
دفعتاً ڈال لئے میں نے لبوں پر تالے
بزم صد رنگ میں جب ذکر تمہارا نکلا
ہوئیں خاموش جو اطراف کی سب آوازیں
میرے اندر سے کوئی شور مچاتا نکلا
آسماں نے مرے رستے میں بچھائیں آنکھیں
بیچ دریا میں مرے واسطے رستہ نکلا
بس ذرا زاویۂ دید جو بدلا میں نے
دشمن جاں بھی مرا چاہنے والا نکلا
یوں لگا جیسے کوئی دیتا ہے آواز مجھے
پاؤں رکھتے ہی میں صحرا کے ادھر جا نکلا
عالم فکر و تجسس پہ ہے طاری سکتہ
ایک ذرے کے ہوئے ٹکڑے تو کیا کیا نکلا
جس کے سجدے کو جبیں خم ہوئی خورشیدوں کی
بطن سے تیرہ شبی کے وہ اجالا نکلا
رات بیٹھی تھی سر راہ بکھیرے گیسو
اپنی دیوار سے میں بن کے ہیولیٰ نکلا
آنچ ہلکی سی جو لگ جائے پگھل جاتا ہے
تیرا احساس بھی یاورؔ مرے جیسا نکلا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.