جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے
جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے
قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے
ابروئے یار دل کا خنجر ہے
مژۂ یار نوک نشتر ہے
چشم عاشق سے دو بہے دریا
ایک تسنیم ایک کوثر ہے
خانۂ دل ہے غیر سے خالی
شوق سے آؤ آپکا گھر ہے
قطعی آج فیصلہ ہوگا
تیری تلوار ہے مرا سر ہے
اب تو دھونی رما کے بیٹھے ہیں
در جاناں پے اپنا بستر ہے
طمع ہر اک کا دین و ایماں ہے
جس کو دیکھو وہ بندۂ زر ہے
خوب دل کھول کر جفا کر لو
بندہ مدت سے اس کا خوگر ہے
بام پر جلوہ گر ہے وہ شاید
کوئے جاناں میں شور محشر ہے
کرتا عالم کو آہ سے برہم
لیک رعناؔ کو یار کا ڈر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.