جس نے رکھا ہے ہمیشہ نفرتوں کے درمیاں
جس نے رکھا ہے ہمیشہ نفرتوں کے درمیاں
وہ دھڑکتا پھر رہا ہے دھڑکنوں کے درمیاں
زندگی کو غور سے دیکھا تو مجھ کو یوں لگا
ایک طوائف جس طرح ہو منچلوں کے درمیاں
اس حریم ناز سے شکوہ کیا تھا ایک دن
منزلیں بکھری پڑی ہیں راستوں کے درمیاں
بے بسی سی بے بسی ہے کیا کہیں کس سے کہیں
میں تو پیاسا مر رہا ہوں بادلوں کے درمیاں
نارسائی کا یہ دکھ تو مار ڈالے گا مجھے
کسمپرسی کا سماں ہے چاہتوں کے درمیاں
میرؔ کے لہجے میں غزلیں کہہ رہا ہوں آج بھی
نام کچھ کچھ بن رہا ہے غالبوں کے درمیاں
پیار کے سارے مناظر دھندلکوں میں ڈھل گئے
کچھ کمی سی رہ گئی تھی رابطوں کے درمیاں
زندگی کے اس بھنور سے کون نکلے دیکھیے
چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں بے بسوں کے درمیاں
سر پہ چھت نہ سائباں ہیں بے بسی تو دیکھیے
کاغذی اک پیراہن ہے بارشوں کے درمیاں
فاختہ زیتون کی شاخوں پہ ماری جائے گی
فیصلہ یہ ہو چکا ہے ظالموں کے درمیاں
دوستوں رہنے بھی دو جھوٹی تسلی کس لیے
وقت اچھا کٹ رہا ہے مشکلوں کے درمیاں
وہ اکیلا ہے اور اس کے چاہنے والے بہت
جنگ ہونے جا رہی ہے عاشقوں کے درمیاں
دشمنوں سے کہہ دیا ہے فکر میری چھوڑ دیں
میں کھڑا ہوں آج بھی کچھ دوستوں کے درمیاں
کس طرح دائمؔ کٹے گا بے یقینی کا سفر
مشورہ یہ ہو رہا ہے قافلوں کے درمیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.