جس قدر بھی زہر دل میں تھا زباں پر آ گیا
جس قدر بھی زہر دل میں تھا زباں پر آ گیا
اس کے لب کھلتے ہی گویا سانپ سا لہرا گیا
رات جو ہم نے سنی تھی وہ تری آواز تھی
صبح لیکن اپنی خوش فہمی پہ رونا آ گیا
اب یہ افسردہ دھندلکے اوڑھ کر سو جائیے
اب تو وعدوں کے جہاں کا چاند بھی گہنا گیا
جانے مایوسی کی کس منزل میں تھے اہل یقیں
پیر کا دھاگا بھی ان کو روشنی دکھلا گیا
دیکھیے ٹکتی ہیں کب تک یہ پرانی کھڑکیاں
آج سڑکوں کا تمدن ان کا دل دہلا گیا
آؤ ناداںؔ آج اس ناسور کا ماتم کریں
جو خراج زندگی لے کر بھی ہم کو کھا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.