جس سے بنتی نہ تھی کبھی اپنی
جس سے بنتی نہ تھی کبھی اپنی
مل گئی اس سے کنڈلی اپنی
انگنت بھید کھول دیتی ہے
ایک لمحے کی خامشی اپنی
ہائے افسوس خود سے ملتے وقت
آڑے آتی رہی کمی اپنی
آہ بے چارگاں کے جیسی ہے
پوچھتے کیا ہو زندگی اپنی
کن کے اسرار کھل رہے ہیں مدام
اور حالت ہے دیدنی اپنی
پا بہ زنجیر شوق ہوتا گیا
دیکھ لے حسن منصفی اپنی
عمر بھر ساتھ ساتھ تھے ہم لوگ
عمر بھر بن نہیں سکی اپنی
کیوں ہے شمس و قمر کا تو محتاج
پیدا کر خود سے روشنی اپنی
ہائے دوزخ یہ پیٹ کا دوزخ
بیچ دی ہم نے شاعری اپنی
بارشی سا مزاج ہے اس کا
اور ناؤ ہے کاغذی اپنی
میں ستاروں سے آگے کیا جاتا
مجھ میں حائل تھی روشنی اپنی
ربط ملت کا خواب تھا اپنا
پر نہ تعبیر ہو سکی اپنی
ہم بھی کرتے قیاس ملت پر
سوچ ہوتی جو ہاشمی اپنی
ایسے الجھے ہیں روز و شب میں ہم
برف ہے سوچ پر جمی اپنی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.