جسے کالی رات نہ ڈس سکے جسے آسماں نہ ڈرا سکے
جسے کالی رات نہ ڈس سکے جسے آسماں نہ ڈرا سکے
کوئی ایسی شمع جلائیے جو ہوا سے آنکھ ملا سکے
میں نئی سحر کا نقیب ہوں مجھے فکر نفع و ضرر نہیں
مرے ساتھ محو سفر وہ ہو جو اجل کے ساز پہ گا سکے
مرے دست کو وہ ہنر عطا ہو ترے دیار کمال سے
جو دلوں میں عزم جگا سکے جو نظر میں پھول کھلا سکے
تو خیال و فکر سے ماورا تو سراپا راز ہی راز ہے
تری کھوج میں جو سدا رہے تری گرد کو بھی نہ پا سکے
وہ ہمیں تھے جو ترے نام پر سر دار ہنس کے گزر گئے
کسی فلسفی سے نہ بن پڑا نہ فقیہ وقت ہی جا سکے
ترے میکدے کا عجیب رسم و رواج ہے مرے ساقیا
کوئی رند جام لپک سکے نہ شراب منہ سے لگا سکے
یہ قضا و قدر کا کھیل ہے کہیں دھوپ ہے کہیں چھاؤں ہے
جسے تم نے چاہا وہ مل گیا جسے ہم نے چاہا نہ پا سکے
مرے ان کے بیچ تھیں دوریاں اے نیازؔ کیسی خبر نہیں
مجھے اپنے پاس بلا سکے نہ غریب خانے تک آ سکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.