جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے
جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے
وہ میرا ہے مگر میرا نہیں ہے
جسے کھونے کا مجھ کو ڈر ہے اتنا
اسے میں نے ابھی پایا نہیں ہے
نقوش اب ذہن سے مٹنے لگے ہیں
بہت دن سے اسے دیکھا نہیں ہے
سنا ہے پھول اب کھلتے نہیں ہیں
تو کیا کھل کر وہ اب ہنستا نہیں ہے
نگر چھوڑا ہے جب سے اس غزل نے
کوئی شاعر غزل کہتا نہیں ہے
تری یادوں سے روشن ہے مرا دل
یہ وہ سورج ہے جو ڈھلتا نہیں ہے
مری آنکھوں کا یہ دریا عجب ہے
کہ بہتا ہے تو پھر تھمتا نہیں ہے
خوشی کا ہو کوئی یا غم کا لمحہ
گزر جاتا ہے کیوں رکتا نہیں ہے
صبیحؔ و خوبرو چہرے کئی ہیں
مگر کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.