جسم کے اس غار میں دکھتا ہے سب
جسم کے اس غار میں دکھتا ہے سب
ریت کے انبار میں دکھتا ہے سب
چاندنی کا نور سورج کا غرور
مجھ کو میرے یار میں دکھتا ہے سب
ٹوٹتی امید مرتا حوصلہ
ڈھ رہی دیوار میں دکھتا ہے سب
موت کے در زندگی کا انتظار
دیکھیے بیمار میں دکھتا ہے سب
آئنے سارے ہٹا کر رکھ دئے
گھر کی ہر دیوار میں دکھتا ہے سب
ہر سفر منزل سے کتنا دور ہے
وقت کی رفتار میں دکھتا ہے سب
زندگی کی کیا انا سے جنگ تھی
اس پھٹی دستار میں دکھتا ہے سب
قربتیں رشتہ محبت دوستی
آج کل بازار میں دکھتا ہے سب
ہوں بہت گم صم بہت چپ چاپ پر
برف کے انگار میں دکھتا ہے سب
سب چھپا لیتی ہے دل کش گفتگو
ہاں مگر کردار میں دکھتا ہے سب
ان کو تو ساحلؔ سے سب کچھ چاہیے
اور ہمیں منجدھار میں دکھتا ہے سب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.