جسم سے روح تک اترتی ہوئی
ایک خوشبو تھی وہ بکھرتی ہوئی
جیسے طوفان کوئی ٹھہرا ہوا
جیسے آفت کوئی گزرتی ہوئی
اس کی پیشانی جیسے چڑھتی دھوپ
زلف اس کی تھی چھاؤں کرتی ہوئی
اس کے ابرو کوئی گھنا جنگل
اور پلک تھی اڑان بھرتی ہوئی
اس کا چہرہ تھا پھول کھلتا ہوا
آنکھ گویا تھی بات کرتی ہوئی
زلف اس کی سیاہ شب کی طرح
صبح عارض پہ شام کرتی ہوئی
اس کے دندان موتیوں جیسے
اس کی بولی دلوں کو ہرتی ہوئی
اس کے لب تھے چھلکتے پیمانے
اس کی گردن صراحی بھرتی ہوئی
اس کی آواز اک ندی کی طرح
دل کے ویرانے سے گزرتی ہوئی
اس کا سینہ کشادہ اک میداں
اس پہ چٹان وہ ابھرتی ہوئی
اس کمر کی لچک کو کیا کہئے
جیسے ہرنی کوئی گزرتی ہوئی
اور مغرور مورنی کی طرح
دو قدم چلتی اور ٹھہرتی ہوئی
اس کی آنکھوں کی یاد ہے چتون
سہمی سہمی ہوئی سی ڈرتی ہوئی
یوں سنورتی تھی آئنے کے قریب
جیسے تقدیر ہو سنورتی ہوئی
میرے کمرے میں اب بھی ہے موجود
ایک تصویر بات کرتی ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.