جتنے دھاگے یادوں کے تھے بڑھتے بڑھتے جال ہوئے
جتنے دھاگے یادوں کے تھے بڑھتے بڑھتے جال ہوئے
آج کا دن پھر لوٹ آیا ہے ہم پھر سے بے حال ہوئے
کتنی بہاریں گزریں جانے کتنی خزائیں بیت گئیں
کون گنے اب موسم اتنے اس سے بچھڑے سال ہوئے
ایک یہی تھی دولت اپنی وہ بھی کس نے چھینی ہے
کیا بتلائیں اس کو کھو کر ہم کیسے کنگال ہوئے
جانے کس نے بویا تھا یہ غم کا بیج عداوت میں
سارے پودے سوکھے لیکن اس پہ پھل ہر سال ہوئے
صبح اگی خاموشی سے اور دن بھی گیا ہے فرصت سے
جاتی شام کے لمحے لیکن اب جی کا جنجال ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.