جو عہد نو میں خمیر بشر بنایا جائے
جو عہد نو میں خمیر بشر بنایا جائے
سناں کو ہاتھ تو نیزے کو سر بنایا جائے
شب حیات کو ایسے سحر بنایا جائے
اک آفتاب سر چشم تر بنایا جائے
مرے حواس کو یہ کون حکم دیتا ہے
کہ اس کو مرکز قلب و نظر بنایا جائے
میں اپنے پیکر خاکی سے مطمئن ہی نہیں
مرے خدا مجھے بار دگر بنایا جائے
درون ذات کسی کا یہ جبر ہے مجھ پر
اسی کو جان اسی کو جگر بنایا جائے
سکون و راحت جاں اب کہیں نہیں ممکن
تمہارے دل کو ہی اب مستقر بنایا جائے
جو ہم نفس بھی ہو ہم راز بھی ہو ہمدم بھی
اسی کو کیوں نہ بھلا ہم سفر بنایا جائے
بہت ہی تنگ ہیں یہ لا مکاں کے گلیارے
سو دشت ذات کو ہی رہ گزر بنایا جائے
اگر بنانا ہی لازم ہے کچھ تو اے خالدؔ
خود اپنی خاک کو اب کے گہر بنایا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.