جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے
یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے
رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی
نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے
یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے
کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی
اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے
ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا
جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے
ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی
نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے
جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی
وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے
وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.