جو بھی کردار سے لکھی جائے
جو بھی کردار سے لکھی جائے
زندگی کیوں نہ وہ پڑھی جائے
دفتر غم میں آ کے بیٹھا ہوں
آج کوئی غزل کہی جائے
ذہن کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہو
گرد یادوں کی صاف کی جائے
زندگی کے حساب میں گم ہوں
حل پہیلی یہ کیسے کی جائے
چند لمحے ہی کھینچ لو اس سے
زندگی شام سی ڈھلی جائے
لب کے کھلتے ہی کان کھل جائیں
ایسے لہجے میں بات کی جائے
بے تحاشہ ہے بھیڑ خود مجھ میں
اب جگہ اور کس کو دی جائے
دل کا شیشہ جو توڑ کر رکھ دے
بات وہ کیوں کہی سنی جائے
جس کو دیکھو اس انتظار میں ہے
شور اٹھے تو خامشی جائے
صرف اردو زبان ہے جو ادیبؔ
رس محبت کا گھولتی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.