جو بجھ گیا اسی منظر پہ رکھ کے آیا ہوں
جو بجھ گیا اسی منظر پہ رکھ کے آیا ہوں
میں سب اثاثۂ دل گھر پہ رکھ کے آیا ہوں
بتا میں کیا کروں اب اے مری تہی دستی
کہ جتنے خواب تھے بستر پہ رکھ کے آیا ہوں
جو لے گئی اسے موج فنا تو حیرت کیا
میں اپنا جسم سمندر پہ رکھ کے آیا ہوں
ہرا بھرا ہوں بہاروں کے زخم کھاتے ہوئے
ان انگلیوں کو گل تر پہ رکھ کے آیا ہوں
یہ میں نہیں مری پرچھائیں ہے ترے آگے
کہ اپنا آپ تو میں گھر پہ رکھ کے آیا ہوں
بہت نڈھال ہوئی ہے تھکن سے روح مری
میں اپنی خاک بدن سر پہ رکھ کے آیا ہوں
- کتاب : واہمہ وجود کا (Pg. 38)
- Author : سالم سلیم
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
- کتاب : سبھی رنگ تمہارے نکلے (Pg. 40)
- Author : سالم سلیم
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2017)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.