جو چاہوں بھی تو اب خود کو بدل سکتا نہیں ہوں
جو چاہوں بھی تو اب خود کو بدل سکتا نہیں ہوں
سمندر ہوں کناروں سے نکل سکتا نہیں ہوں
میں یخ بستہ فضاؤں میں اسیر زندگی ہوں
تری سانسوں کی گرمی سے پگھل سکتا نہیں ہوں
مرے پاؤں کے نیچے جو زمیں ہے گھومتی ہے
تو یوں اے آسماں میں بھی سنبھل سکتا نہیں ہوں
خود اپنے دشمنوں کے ساتھ سمجھوتا ہے ممکن
میں تیرے دشمنوں کے ساتھ چل سکتا نہیں ہوں
وہ پودا نفرتوں کا ہے جہاں چاہے اگا لو
محبت ہوں میں ہر مٹی میں پھل سکتا نہیں ہوں
انہیں لڑنا پڑے گا مجھ سے جب تک ہوں میں زندہ
حصار دشمناں سے گو نکل سکتا نہیں ہوں
کھلے ہیں راستے کتنے مرے رستے میں عظمیؔ
مگر میں ہوں کہ ہر سانچے میں ڈھل سکتا نہیں ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.