جو ڈر اپنوں سے ہے غیروں سے وہ ڈر ہو نہیں سکتا
جو ڈر اپنوں سے ہے غیروں سے وہ ڈر ہو نہیں سکتا
یہ وہ خنجر ہے جو سینے سے باہر ہو نہیں سکتا
جو سچ پوچھو تو یہ تصویر بھی ہے سانحہ جیسی
کسی بھی سانحے پر کوئی ششدر ہو نہیں سکتا
کھٹکتی ہے کسی شے کی کمی اس دار فانی میں
شکستہ بام و در جس کے نہ ہوں گھر ہو نہیں سکتا
یہ آخر کیوں کہ ہر دن ایک موسم ایک ہی منظر
جہاں زیر و زبر ہو اس سے بہتر ہو نہیں سکتا
نہ شامل ہو جو آشفتہ خیالی ذہن محکم میں
وہ کچھ بھی ہو چمن زار معطر ہو نہیں سکتا
کلی کا لب بدن کندن کا قامت سرو کی لیکن
وفا نا آشنا میرے برابر ہو نہیں سکتا
فقط صورت میں کیا رکھا ہے اے حسن تماشا ہیں
کہ کار آئنہ سے میں سکندر ہو نہیں سکتا
کسی کو چاہنے سے باز آنا کیسے ممکن ہے
لکھا ہے جو کتابوں میں وہ اکثر ہو نہیں سکتا
ترے انکار کو اس زاویے سے دیکھتا ہوں میں
ترا ملنا بھی معیار مقدر ہو نہیں سکتا
یہ مانا عیب بھی ہیں سیکڑوں کس میں نہیں ہوتے
امین اشرفؔ مگر تجھ سا قلندر ہو نہیں سکتا
- کتاب : Shabkhoon (Urdu Monthly) (Pg. 1195)
- Author : Shamsur Rahman Faruqi
- مطبع : Shabkhoon Po. Box No.13, 313 rani Mandi Allahabad (June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II)
- اشاعت : June December 2005áIssue No. 293 To 299âPart II
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.