جو درد میں راحت پا نہ سکے الفت کی حقیقت کیا جانے
جو درد میں راحت پا نہ سکے الفت کی حقیقت کیا جانے
پروانہ صفت جو جل نہ سکے سرشاریٔ الفت کیا جانے
ہر وقت ہے کوئی پیش نظر یکساں ہے کسی کی شام و سحر
محرومیٔ قربت کے صدمے ناکام محبت کیا جانے
شکوہ بھی کریں تو کس سے کریں معصوم نظر معصوم ادا
جیسے وہ محبت کیا سمجھے جیسے وہ عداوت کیا جانے
سر چشمۂ الفت ہو کر بھی بیگانۂ راہ الفت ہے
کیوں تاب و تواں ہم کھو بیٹھے وہ چشم عنایت کیا جانے
امید کی پیہم غم خواری بیتابی میں بھی سرشاری
کیا ہجر میں لذت ملتی ہے آسودۂ الفت کیا جانے
جب دل میں ہجوم یاس ہوا دو آنسو آنکھ سے بہہ نکلے
جاں دادۂ راہ و رسم وفا در پردہ شکایت کیا جانے
اے ناصح مشفق اس کے سوا کیا تجھ کو بتائیں کیا ہے مزہ
دیکھی ہی نہیں جب اس کی نظر تو نشۂ الفت کیا جانے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.