جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے
جو دل میں کھٹکتی ہے کبھی کہہ بھی سکو گے
یا عمر بھر ایسے ہی پریشان پھرو گے
پتھر کی ہے دیوار تو سر پھوڑنا سیکھو
یہ حال رہے گا تو جیو گے نہ مرو گے
طوفان اٹھاؤ گے کبھی اپنے جہاں میں
یا آنکھ کے پانی ہی کو سیلاب کہوگے
سوئے ہو اندھیرے میں چراغوں کو بجھا کر
آئے گا نظر خاک اگر جاگ اٹھوگے
اپنی ہی حقیقت کو نہ پہچاننے والو
تم پردۂ افلاک کو کیا چاک کرو گے
اے برق کی مانند گزرتے ہوئے لمحو
کیا آنکھ جھپکنے کی بھی مہلت نہیں دو گے
روشن بھی کرو گے کبھی تاریکئ شب کو
یا شمع کی مانند پگھلتے ہی رہوگے
ارزاں ہے بہت خون فروزاں ہے بہت شام
کیا اپنی ہی محفل میں چراغاں نہ کرو گے
مانا کہ کٹھن راہ ہے دشوار سفر ہے
کیا ایک قدم بھی نہ مرے ساتھ چلو گے
گزرے ہوئے لمحے کی وہ بے نام کسک ہوں
تم جس کی تمنا میں پریشان پھرو گے
چاہو گے نشاں بھی نہ رہے میرا جہاں میں
گر ذکر کرو گے تو مرا نام نہ لوگے
یہ گرد سفر حال وہ کر دے گی کہ شہزادؔ
تم اپنی بھی صورت کو نہ پہچان سکو گے
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 419)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.