جو دل پہ تیر تمہاری ادا کے بیٹھے ہیں
جو دل پہ تیر تمہاری ادا کے بیٹھے ہیں
وہ گویا بن کے فرشتے قضا کے بیٹھے ہیں
جو میکدے میں یہ مے خوار آ کے بیٹھے ہیں
نہ بے غرض کے نہ بے مدعا کے بیٹھے ہیں
صنم کدے ہوئے معمور حق پرستوں سے
بتوں کی یاد میں بندے خدا کے بیٹھے ہیں
یہ سوچتے ہیں کہ ہاتھ آئے کوئی طرز ستم
ہماری فکر میں وہ سر جھکا کے بیٹھے ہیں
جہاں میں جلوہ فروشی ہے آپ کو منظور
اسی لئے تو سر بام آ کے بیٹھے ہیں
یہی تو طالب دیدار کی تمنا تھی
نقاب آپ جو رخ سے اٹھا کے بیٹھے ہیں
لگی نہ کم ہو پس مرگ بھی یہ مطلب ہے
وہ شمع میری لحد پر جلا کے بیٹھے ہیں
ہم اپنے آپ کو اے چرخ مثل نقش قدم
کسی کی راہ طلب میں مٹا کے بیٹھے ہیں
فراق یار میں کچھ ایسی ناامیدی ہے
کہ اپنی زیست سے ہم ہاتھ اٹھا کے بیٹھے ہیں
ہمارا ان کا اسی دن تو فیصلہ ہوگا
ہم انتظار میں روز جزا کے بیٹھے ہیں
جناب شیخ بھی ہنگام مے کشی حامدؔ
ادب سے محفل رنداں میں آ کے بیٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.