جو دشمن ہے اسے یوں بھی سزا ہم لوگ دیتے ہیں
جو دشمن ہے اسے یوں بھی سزا ہم لوگ دیتے ہیں
وہ جب جب زخم دیتا ہے دعا ہم لوگ دیتے ہیں
ہماری راہ میں کانٹے بچھانا جس کا شیوہ ہے
وہ ملتا ہے تو پھولوں کی قبا ہم لوگ دیتے ہیں
ہماری راہ کانٹوں سے بھری ہے سوچ کر آؤ
زمانے کو بدلنے کی صدا ہم لوگ دیتے ہیں
کھلا دے ایک دن آ کر یہ مرجھائے ہوئے چہرے
تجھے آواز اے باد صبا ہم لوگ دیتے ہیں
یوں ہی آتی نہیں مقتل میں پس منظر کی تابانی
لہو سے اپنے ہر منظر کھلا ہم لوگ دیتے ہیں
ہمارے خون کو اتنا بھی ارزاں مت سمجھ دنیا
ترے ہاتھوں پہ یہ رنگ حنا ہم لوگ دیتے ہیں
ان آنکھوں میں اگر تھوڑی سی بھی بینائی باقی ہو
تو اپنی شکل دیکھو آئنہ ہم لوگ دیتے ہیں
نعیمؔ اپنے لہو کی چیخ سنتا ہی نہیں کوئی
نہ جانے کس بیاباں میں صدا ہم لوگ دیتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.