جو ڈوبتے ہوئے بازو نکال لیتا ہے
سمندروں میں بھی ٹاپو نکال لیتا ہے
ادھر میں اس کی ہتھیلی پہ پھول رکھتا ہوں
ادھر وہ جیب سے بچھو نکال لیتا ہے
اسی لئے میں گلے سے نہیں لگاتا اسے
وہ پیرہن سے بھی خوشبو نکال لیتا ہے
کچھ ایسی پیاس کا مارا ہوا ہے بے صبرا
کے جام دیکھ کے چلو نکال لیتا ہے
اسی کے ہاتھ خزانے اثر کے لگتے ہیں
دعا کے ساتھ جو آنسو نکال لیتا ہے
کسی کو رقص سکھاتا ہے وقت کا پہیا
کسی کے پاؤں سے گھنگرو نکال لیتا ہے
اسی لئے میں سناتا نہیں غزل اس کو
وہ شعر سن کے ترازو نکال لیتا ہے
کسی کے کام ہی آئے گا جنگ میں ہرشتؔ
بدن سے تیر اگر تو نکال لیتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.