جو گزرتا ہے گزر جائے جی
جو گزرتا ہے گزر جائے جی
آج وہ کر لیں کہ بھر جائے جی
آج کی شب یہیں جینا مرنا
جس کو جانا ہو وہ گھر جائے جی
اس گلی سے نہیں جانا ہم کو
آن رخصت ہو کہ سر جائے جی
وقت نے کر دیا جو کرنا تھا
کوئی مرتا ہے تو مر جائے جی
شاخ گل موج ہوا رقصاں ہیں
پھول بکھرے تو بکھر جائے جی
منظروں کے بھی پرے ہیں منظر
آنکھ جو ہو تو نظر جائے جی
سمت کیا راہ کیا منزل کیسی
چل پڑو آپ جدھر جائے جی
اپنی ہی سوچ پہ چلنا چاہے
اپنی ہی سوچ سے ڈر جائے جی
یہ عجب بات ہے اکثر جاویدؔ
جس سے روکیں وہی کر جائے جی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.