جو ہو چکا ہے جو ہونا ہے اس کا سنگم ہے
جو ہو چکا ہے جو ہونا ہے اس کا سنگم ہے
ابھی سے آگے معلق ہے پیچھے مبرم ہے
ہمارے شہر کے ہر سچ میں جھوٹ مدغم ہے
یہاں سفید و سیہ کی تمیز مبہم ہے
بس ایک میں سے عزازیل ہو گیا ابلیس
اور اک دعا کی بدولت خلیفہ آدم ہے
نہ ہا و ہو نہ کوئی چیخ ہے سر مقتل
ہمارے شہر میں کیسا یہ ہو کا عالم ہے
کسی کے شوق نے گنگا کا روپ دھار لیا
کسی کے عشق کا اظہار آب زمزم ہے
کہاں پہ بھیج دیا ہے یہ کیسی دنیا ہے
کہ زندگی تو یہاں ایک جہد پیہم ہے
جو حال پوچھنے آئے ہیں میرے زخموں کا
کسی کے ہاتھ نمک ہے کسی کے مرہم ہے
یہ کس نے سوچ کا اس شب دیا جلایا ہے
فصیل شہر پہ اب روشنی کا پرچم ہے
یہ کیا سوال اٹھایا ہے پھر ہدایتؔ نے
فقیہ شہر کا پھر سے مزاج برہم ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.