جو ہو چکا ہے لہو اب وہ شیر جاگے گا
جو ہو چکا ہے لہو اب وہ شیر جاگے گا
وہ ظلم ہے کہ ہر اک کا ضمیر جاگے گا
بہت دنوں میں لی نفرت نے دل میں انگڑائی
جو محو خواب ہے ترکش کا تیر جاگے گا
جوان بیٹی کے ہم راہ بھیک مانگتا ہے
نگاہ بد جو پڑے گی فقیر جاگے گا
پرائے خون سے اتنا بھی پیار کیا کرنا
بڑھے گی عمر تو اس کا خمیر جاگے گا
چتا کے شعلوں کو رہنے دے سرد ہی ورنہ
بھڑک اٹھے گا تو مردہ شریر جاگے گا
یہ کس سوال میں الجھے ہوئے ہیں فرزانے
کوئی جگائے تو بر صغیر جاگے گا
ادب نواز کے اندر رہی جو بیداری
تو خانقاہ ادب کا بھی پیر جاگے گا
اے میرے دوست لگا انقلاب کا نعرہ
ہر ایک گھر کا صغیر و کبیر جاگے گا
خیال خام ہے شیطان ورغلاتا ہے
وہ سوتا کب ہے کہ رب قدیر جاگے گا
تو اپنے لمس کے جادو پہ اعتبار نہ کر
اسے جھنجھوڑ تب اس کا شریر جاگے گا
رہ طلب میں نہ بھٹکے گا کوئی بھی احسنؔ
جو کارواں کی امیدوں کا میر جاگے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.