جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
مرے مدعا پر نہیں ہو چکی
برا ہو مری ناتوانی ترا
نگاہ دم واپسیں ہو چکی
امید کرم کچھ نہ ساقی سے رکھ
کہ اب وہ مے ساتگیں ہو چکی
سناؤں اگر تا قیامت تو کیا
کہانی مری دل نشیں ہو چکی
کروں کس طرح اب میں عرض نیاز
کہ باقی ہے در اور جبیں ہو چکی
تراوش کہاں زخم دل میں وہ اب
کہیں کچھ رہی ہے کہیں ہو چکی
بس اب ہاتھ سے رکھ دو شیداؔ قلم
تمہاری غزل کی زمیں ہو چکی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.