جو ہونٹوں پہ مہر خموشی لگا دی
تو مل کر نگاہوں نے تالی بجا دی
کسی کے لیے میں پریشاں نہیں ہوں
رقیبوں نے جانے کہاں کی اڑا دی
جنوں اپنی تقدیر سے کھیلتا ہے
مٹائی بنا دی بنائی مٹا دی
ابھی نور و ظلمت میں چلتی رہے گی
نہ وہ اس کے عادی نہ میں اس کا عادی
خبر کارواں کی نہ ہو رہزنوں کو
یہی سوچ کر میں نے مشعل بجھا دی
گلوں نے جب الزام رکھا خزاں پر
تو وہ خار کو دیکھ کر مسکرا دی
توقع نہیں تھی مظفرؔ سے ان کو
کھری بات سن کر قیامت اٹھا دی
- کتاب : kamaan (Pg. 163)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.