جو امتحان وفا کو وہ تند خو آئے
جو امتحان وفا کو وہ تند خو آئے
ترا جگر نہیں اے بوالہوس کے تو آئے
ہے استفادۂ صحبت کو شرط استعداد
محال ہے کبھی کانٹوں میں گل کی بو آئے
وہ سجدہ کیوں نہ کرے بے خودی میں چار طرف
ترا ہی جلوہ نظر جس کو چار سو آئے
جب آئے تم تو بڑھانے کو آئے حسرت کے
کبھی نکالنے کو میری آرزو آئے
یہ کہہ رہا ہے کسی کا جمال ہوش ربا
کرے جو ہوش کا دعویٰ وہ روبرو آئے
ہجوم یاس سے دل بھر گیا یہ خوب ہوا
جگہ نہیں رہی باقی کہ آرزو آئے
بہار اشک ہوئے اس گلی میں رسوا ہم
ملائے خاک میں موتی سی آبرو آئے
نسیم تجھ کو مبارک بہار کا آنا
قفس میں ہوں مجھے کیا لطف رنگ و بو آئے
بتوں کی ساری حقیقت برہمنو کھل جائے
ابھی زبان پر اپنی جو ایک ہو آئے
حرم تھا دور نہ چوما جو سنگ اسود کو
صنم کدے میں بتوں کے قدم تو چھو آئے
اسے حیا نہیں کہتے یہ ظلم ہے ظالم
غضب ہے خواب میں بھی منہ چھپا کے تو آئے
خدا کی شان کے قربان او بت بے درد
تسلیاں مجھے دینے کو اور تو آئے
خیالؔ وصل کی شب ہجر کا گلہ کیسا
خوشی میں کیوں کوئی رنجش کی بو آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.