جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ
جو اس زمین پہ رہتے تھے آسمان سے لوگ
کہاں گئے وہ مرے سارے مہربان سے لوگ
یہ بے چراغ سی بستی یہ بے صدا گلیاں
ہر ایک سمت یہ اجڑے ہوئے مکان سے لوگ
سر نوشتۂ تقدیر خواب کی صورت
لکھے ہیں ریت پہ کچھ حرف رائیگان سے لوگ
کہ یہ اثر تو نہیں ان کی فاقہ مستی کا
پھر آج تنگ ہوئے ہیں جو اپنی جان سے لوگ
کچھ اس میں حسب ضرورت کئے گئے شامل
کچھ ہم نے حذف کئے اپنی داستان سے لوگ
ابھی نہ ختم ہوا تھا فسانۂ ہستی
گریز کرنے لگے اپنے درمیان سے لوگ
پڑی ہے ریت پہ ٹوٹی ہوئی وہ کشتیٔ خاک
کہ اڑ رہے ہیں ہواؤں میں بادبان سے لوگ
تجھے تو اپنی ہی جاں کی پڑی ہوئی ہے کمالؔ
گزر رہے ہیں یہاں پر کس امتحان سے لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.