جو کہہ رہے ہیں یہ انداز مجرمانہ ہے
جو کہہ رہے ہیں یہ انداز مجرمانہ ہے
لہو میں ان کے تلاطم نیا اٹھانا ہے
نہیں ہے شکوہ رقیبوں سے اس تباہی کا
یہ اپنے ہاتھ سے کرنی کا شاخسانہ ہے
میں اس کے آگے بھلا کیسے جیت سکتا ہوں
وہ جس کا شوق ہے یارو مجھے ہرانا ہے
دیار غیر کے انجان دشت کے راہی
کسے خبر ہے کہاں کس کا آب و دانہ ہے
صدا فقیر کی اعلان کرتی ہے گویا
مجھے تلاش رخ و قلب عاجزانہ ہے
رموز فہم و فراست ہیں ہر جگہ پنہاں
جناب میرؔ کا ہر شعر عاقلانہ ہے
ہے یہ بھی باعث اعزاز اے مرے منصف
ہمارے شانہ بہ شانہ تمہارا شانہ ہے
خدا کرے کہ مری قوم کو عروج ملے
امیر شہر کا انداز فاتحانہ ہے
عجب تماشہ ہے حیران ہو رہا ہوں میں
کہ جاہلوں کا بھی انداز عالمانہ ہے
عجیب طرز حکومت ہے حکمرانوں کا
جدھر بھی دیکھیے انجمؔ غریب خانہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.