جو خود نہ اپنے ارادے سے بد گماں ہوتا
جو خود نہ اپنے ارادے سے بد گماں ہوتا
قدم اٹھاتے ہی منزل پہ کارواں ہوتا
یہ لطف ان کے تغافل میں پھر کہاں ہوتا
جو اک لطیف تبسم نہ درمیاں ہوتا
کھلے ہیں پھول جو ایسے میں تم چلے آتے
یہ اہتمام بہاراں نہ رائیگاں ہوتا
دماغ عرش پہ ہے جس کی دھن میں وہ سجدہ
مرے نصیب میں ہوتا تو میں کہاں ہوتا
سمجھ تو یہ کہ نہ سمجھے خود اپنا رنگ جنوں
مزاج یہ کہ زمانہ مزاج داں ہوتا
بھری بہار کے دن ہیں خیال آ ہی گیا
اجڑ نہ جاتا تو پھولوں میں آشیاں ہوتا
حسین قدموں سے لپٹی ہوئی کشش تھی جہاں
وہیں تھا دل بھی رضاؔ اور دل کہاں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.