جو کچھ ہوا سو ہوا اب سوال ہی کیا ہے
جو کچھ ہوا سو ہوا اب سوال ہی کیا ہے
بیان حال کروں مجھ میں حال ہی کیا ہے
کچھ اور چاہتی ہے ان سے شورش الفت
ہوا خیال تو ایسا خیال ہی کیا ہے
زمانہ چاہئے وہ اعتراف شوق کریں
ابھی یہ روز و شب و ماہ و سال ہی کیا ہے
کسی خیال میں بس زندگی گزر جائے
غم فراق و امید وصال ہی کیا ہے
برا کیا نہ کریں گے کبھی ستم کا گلہ
حضور دور ہی کر دیں ملال ہی کیا ہے
قرار دل کو میسر نہیں کہیں جاؤ
نظر فریبئ حسن و جمال ہی کیا ہے
وہ سامنے ہیں مگر حسن اس کو کہتے ہیں
کوئی نظر تو اٹھائے مجال ہی کیا ہے
بڑا کمال کیا بھی تو چھو لیا دامن
دراز دستئ دست سوال ہی کیا ہے
ہوئے وہ ہم سے پشیماں سہاؔ کرم ان کا
وگرنہ آرزوئے پائمال ہی کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.