جو لب پہ نہ لاؤں وہی شعروں میں کہوں میں
جو لب پہ نہ لاؤں وہی شعروں میں کہوں میں
یوں آئینۂ حسرت گفتار بنوں میں
آئینۂ آغاز میں دیکھوں رخ انجام
کلیوں کے چٹکنے کی صدا سے بھی ڈروں میں
میرے لیے خلوت بھی ہے ہنگامے کی صورت
وہ شور تمنا ہے کہ کس کس کو سنوں میں
ٹھہرو تو یہ گھر کیا دل و جاں بھی ہیں تمہارے
جاتے ہو تو کیوں راہ کی دیوار بنوں میں
ہر گام نگاہوں سے لپٹ اٹھتے ہیں شعلے
اور دل کی یہی ضد ہے اسی راہ چلوں میں
ہر ایک نظر آبلہ پا دیکھ رہا ہوں
بستے ہوئے شہروں کو بھی صحرا ہی کہوں میں
کوئی بھی سر دار چراغاں نہیں کرتا
اور سب کی تمنا ہے کہ منصور بنوں میں
نقاشیٔ تخیل سے گھبرا سا گیا ہوں
کب تک یوں ہی خوابوں کے جزیروں میں رہوں میں
جو لے گیا جان و جگر و دل سر راہے
وہ گھر مرے آ جائے تو کیا نذر کروں میں
مجھ کو ہے جنوں زمزمۂ برگ خزاں کا
پت جھڑ کے لئے گوش بر آواز رہوں میں
صادقؔ مجھے منظور نہیں ان کی نمائش
ہر چند کہ زخموں کا خریدار تو ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.