جو لوگ بھی حالات سے گھبرائے ہوئے ہیں
جو لوگ بھی حالات سے گھبرائے ہوئے ہیں
چوکھٹ پہ تمہاری وہ سبھی آئے ہوئے ہیں
جن کو بھی ملی خاک در یار ذرا سی
بے نور جبینوں کو وہ چمکائے ہوئے ہیں
دامن کو جھلسنے سے بچانے کی غرض کیا
شعلے یہ تمہارے ہی تو بھڑکائے ہوئے ہیں
چاہو تو اگر بانٹ لو ہم سے غم ہجراں
ہم بھی تو کسی شخص کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
رکھے ہیں وہ زندان کو آباد خوشی سے
زنجیر غلامی کی جو کھنکائے ہوئے ہیں
چاٹے ہیں ترے ہجر کے لمحات بدن کو
یہ وصل کے امکان مجھے کھائے ہوئے ہیں
محفل میں گھماتے ہوئے انگلی سے وہ کاکل
کیا جانیے کس کس پہ ستم ڈھائے ہوئے ہیں
اب کیسے بتاؤں تری زلفوں سے زیادہ
دنیا کے مسائل مجھے الجھائے ہوئے ہیں
اپنوں سے ہی کرنی ہے ہمیں اپنی حفاظت
اللہ یہ کس دور میں ہم آئے ہوئے ہیں
پڑتی ہی نہیں ہیں کبھی خوشیوں کی شعاعیں
ہر سمت مرے ابر ستم چھائے ہوئے ہیں
افضلؔ نہیں رہتا کوئی دنیا میں ہمیشہ
پھر آپ یہ کس بات پہ اترائے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.