جو موج خوشبوؤں کی تھی گلاب سے نکل گئی
جو موج خوشبوؤں کی تھی گلاب سے نکل گئی
میں مضمحل تھی اس قدر شباب سے نکل گئی
یہ زندگی یہ رخصتی اسی کی ہیں امانتیں
شکستہ جسم میں ترے عذاب سے نکل گئی
میں لکھ رہی تھی داستاں ترا بھی نام آ گیا
کہانی اپنے آپ ہی کتاب سے نکل گئی
وہ لمس بڑھ رہا تھا اب قریب سے قریب تر
سو میں نے فیصلہ کیا حباب سے نکل گئی
شریک دوڑ میں ہوئے سفر بھی اور قیام بھی
تو رخش وقت میں تری رکاب سے نکل گئی
سوال کا جواب بھی سوال ہی سے دے گا تو
جھمیلا ساز میں ترے سراب سے نکل گئی
میں مبتلائے آرزو تھی آرزو سے جاگ اٹھی
اور اگلے پل ہی زندگی حساب سے نکل گئی
نراش چاند تیرگی میں گھل کے شانت ہو گیا
سحرؔ میں نیند میں چلی تو خواب سے نکل گئی
- کتاب : Word File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.