جو ملا کرتی تھی مجھ کو لکڑیوں کی ٹال پر
جو ملا کرتی تھی مجھ کو لکڑیوں کی ٹال پر
ایسی لڑکی آج تک دیکھی نہیں ہے مال پر
آنکھ میں سائے کی خواہش پیٹ میں روٹی کی بھوک
پھر بھی کیسی تازگی تھی پھول جیسے گال پر
اس کو دیکھا تو اسے بس دیکھتا ہی رہ گیا
جیسے اک زخمی سی تتلی ایک ٹوٹی ڈال پر
جانے کیسے اس کو میری پیاس کی پہنچی خبر
لائی چاندی سے کٹورے سونے ایسے تھال پر
پتلی پتلی روٹیوں کو چوپڑے گی ہاتھ سے
ڈال کر تڑکا وہ مجھ کو دے گی پتلی دال پر
میری نظروں سے چھپا کر اس سے آنکھیں پونچھ لیں
اس نے میرا نام لکھ رکھا تھا جس رومال پر
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 202)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.