جو نہیں کہنا تھا خود سے بارہا کہتی رہی
جو نہیں کہنا تھا خود سے بارہا کہتی رہی
ان سنی کرتی رہی ہوں ان کہا کہتی رہی
وقت کی تبدیلیاں میری چمک کو کھا گئیں
اور میں تبدیلیوں کو ارتقا کہتی رہی
خود سے اکثر پوچھتی ہوں ایک سادہ سا سوال
حبس کو میں کس لیے باد صبا کہتی رہی
جانے کیوں سمجھی تھی میری بات کو سمجھو گے تم
ایک ہی میں بات تم سے بے وجہ کہتی رہی
کہتے رہنے سے ندامت کم نہیں ہوتی مگر
میں غلط ہوں ہاں غلط ہوں برملا کہتی رہی
حق تو یہ ہے اب مجھے سب نا سمجھ کہتے رہیں
تیرے جیسے بے وفا کو با وفا کہتی رہی
جی حضوری بھی جو کی تو پوری آب و تاب سے
زندگی کو بندگی کا فلسفہ کہتی رہی
نازیہؔ اس بات کی جتنی ملے کم ہے سزا
کیا سمجھ کے میں تجھے اپنا خدا کہتی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.