جو پرند خواہشوں کے کبھی ہم شکار کرتے
جو پرند خواہشوں کے کبھی ہم شکار کرتے
نہ گلا کسی سے رہتا نہ یہ دل فگار کرتے
وہ علاحدگی یقیناً نہ یوں اختیار کرتے
جو ذرا بھی انس ہم سے کبھی رکھتے، پیار کرتے
تھی خموشیٔ سلاسل کی بھی شرط اس لئے بھی
کہاں جا کے حشر برپا ترے جاں نثار کرتے
ہوئی اس قدر ندامت ہمیں کہہ کے حال دل خود
نہ تھا یہ ہمارا مقصد انہیں سوگوار کرتے
یہ فضائے بے یقیں ہی بنی ربط میں توازن
نہ یہ رسم و راہ رہتی اگر اعتبار کرتے
نہ اماں نصیب ہوتی تمہیں چار سو کبھی پھر
کہیں ہم روش تمہاری اگر اختیار کرتے
یہاں بارش ستم سے جو لگے تھے زخم ان کو
ہوئے بد حواس ایسے کہ کہاں شمار کرتے
نئے عاشقو بتاؤ یہ کہاں کی عاشقی ہے
کہیں جا کے دل لٹاتے کہیں جاں نثار کرتے
کبھی ملتے پھر نہ شاید کسی موڑ پر بھی دونوں
اسی راہ پر خطر پر اگر انتظار کرتے
یہ جھجھک رہ وفا میں، یہ شکایت تغافل
ہمیں دھڑکنوں میں پاتے اگر اعتبار کرتے
کبھی دیتی ہم کو مہلت جو یہ گردش زمانہ
ترے زور تمکنت پر تو ضرور وار کرتے
تری بے رخی پہ سر پر نہ اٹھاتے آسماں گر
یہ تو ہی بتا کہ کیا پھر ترے جاں نثار کرتے
یہی دل لگی تمہاری کسی آہ میں بدلتی
جو ہمارے زخم گنتے، کبھی غم شمار کرتے
نہ تھے ہم یگانہ ایسے کہ سوال اٹھتا کوئی
انہیں کیا غرض تھی ہم سے جو وہ انتظار کرتے
ہے یہ فخر جس پہ تم کو وہ سواد روشنی ہے
کبھی ظلمت زماں بھی کہیں تار تار کرتے
یہ جھجھک، لحاظ، رتبہ، یہ حدود، یہ توازن
کبھی حال دل بتاتے، کبھی اعتبار کرتے
سر راہ سب اترتے، مہ و فتاب و انجم
شب تار جگمگاتی اگر انتظار کرتے
وہ جو تھا عمل، اسی کا رد عمل ہے خالدؔ
نہ تو وہ شکار ہوتے نہ ہمیں شکار کرتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.