جو شب سیاہ سے ڈر گئے کسی شام ہی میں بھٹک گئے
جو شب سیاہ سے ڈر گئے کسی شام ہی میں بھٹک گئے
وہی تاجدار سحر بنے جو سیاہیوں میں چمک گئے
نہ بنایا منہ کسی جام پر نہ لگایا دل کسی جام سے
جو لبوں تک آئے وہ پی لیے جو چھلک گئے وہ چھلک گئے
ہے حیات جہد نفس نفس رہ آشیاں ہے قفس قفس
جو نہ نوک خار پہ چل سکے رہ زندگی سے بھٹک گئے
تجھے کچھ خبر بھی ہے محتسب اسی بزم میں ترے سامنے
لڑیں دور ہی سے نگاہیں کبھی یوں بھی جام کھنک گئے
مرے رہنمائے سخن سرا کبھی منبروں سے اتر ذرا
کوئی گام راہ عمل میں بھی تری گفتگو سے تو تھک گئے
ہیں نہ جانے کتنے گل حسیں جو چھپائے عارض آتشیں
لیے اپنا ساغر عنبریں کسی دشت ہی میں مہک گئے
کہوں کیا میں زیست کی داستاں اسے یوں سمجھ مرے مہرباں
کبھی حرف بزم جو سن لیا تو نظر کے جام چھلک گئے
رہ علم شک کی ہیں سیڑھیاں یہی ذہن زندہ کا ہے نشاں
جسے اختلاف میں ہو گماں وہ ہمیں نہ ہوں جو بہک گئے
نہ نظر ملی نہ زباں کھلی چھپی پھر بھی دل کی نہ بیکلی
کبھی دور جا کے پلٹ پڑے کبھی پاس جا کے ٹھٹک گئے
چلی باد جبر اگر تو کیا مجھے یوں جہاں نہ بجھا سکا
مجھے راس آئی یہی ہوا مرا شعلے اور بھڑک گئے
مرے ذہن و دل کی بصیرتیں غم زندگی کی حقیقتیں
مرے لب پہ گیت نہیں ہیں وہ کہ جو پائلوں میں چھنک گئے
سنیں بام ہوش پہ جا کے کیوں تری ملاؔ آیت بے مزہ
ابھی کوئی عشق میں رات کو وہ غزل سنی کہ پھڑک گئے
- کتاب : Kulliyat-e-Anand Narayan Mulla (Pg. 536)
- Author : Khaliq Anjum
- مطبع : National Council for Promotion of Urdu Language-NCPUL (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.