جو سوچتا ہے تو ویسا ہی حال تھوڑی ہے
جو سوچتا ہے تو ویسا ہی حال تھوڑی ہے
سمجھنا جھوٹ کو بھی سچ کمال تھوڑی ہے
ہے کچھ ہی لمحے کو یہ ظلمتوں کا ڈیرا بھی
کہ زیست تیرگی بھی ماہ و سال تھوڑی ہے
بہت غرور ہے کیوں تجھ کو تیری شہرت پر
کہ شہرتوں کی فقط تو مثال تھوڑی ہے
ہیں مشکلوں سے بھری راہیں اور تنہا سفر
ابھی پڑاؤ ہے منزل مآل تھوڑی ہے
سفر میں کومہ کو منزل سمجھنے والے سن
مرا عروج ابھی ہے زوال تھوڑی ہے
تو اتنی حسرتوں سے مجھ کو پڑھ رہا ہے کیوں
غزل میں میرا ہے تیرا خیال تھوڑی ہے
ان آنسوؤں کو شغفؔ صبر کیسے آئے گا
یہ شام ہجر ہے صبح وصال تھوڑی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.