جو سوچتے رہے وہ کر گزرنا چاہتے ہیں
جو سوچتے رہے وہ کر گزرنا چاہتے ہیں
کہ خواب آنکھوں سے گھر میں اترنا چاہتے ہیں
سنائی دیتی ہے ہر سمت سے نوید بقا
امیر شہر کہ جب لوگ مرنا چاہتے ہیں
پرندہ خوف زدہ ہیں کہ پالنے والے
پروں کے ساتھ زباں بھی کترنا چاہتے ہیں
زمیں کی آرزو سیراب ہو کسی صورت
سمندروں میں جزیرے ابھرنا چاہتے ہیں
ابھرنے لگتی ہے اک چیخ اس کنارے پر
ہم اس کنارے پہ جب بھی اترنا چاہتے ہیں
عدم ثبوت و شہادت میں ہوں بری تو وقارؔ
ہم اپنے جرم کا اقبال کرنا چاہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.