جو تھامتے تھے مرا ہاتھ بوڑھے ہو گئے ہیں
جو تھامتے تھے مرا ہاتھ بوڑھے ہو گئے ہیں
تبھی تو میرے خیالات بوڑھے ہو گئے ہیں
اب اس سے بڑھ کے ہمیں اور آزمائے گا کیا
کہ چلتے چلتے ترے ساتھ بوڑھے ہو گئے ہیں
ہمارا بوجھ اٹھانے سے اب گریزاں ہیں
تمہارے ارض و سماوات بوڑھے ہو گئے ہیں
سفر مزید کریں گے تو گر پڑیں گے کہیں
کہ آتے جاتے یہ دن رات بوڑھے ہو گئے ہیں
جو میرے سر کی سفیدی پہ مسکراتے تھے
بس ایک رات رہے ساتھ بوڑھے ہو گئے ہیں
میں نسل نو کا اسے المیہ سمجھتا ہوں
شجر جواں ہیں مگر پات بوڑھے ہو گئے ہیں
تمہاری سمت سے اذن کلام ملتا نہیں
مرے لبوں پہ سوالات بوڑھے ہو گئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.