جو تھے منزلوں کے فراق میں سبھی راستے وہ مٹا دیے
جو تھے منزلوں کے فراق میں سبھی راستے وہ مٹا دیے
سر شام ہی جو بھڑک اٹھے وہ الاؤ میں نے بجھا دیے
میں فریب وقت میں قید تھی رخ کارواں نہ بدل سکی
کڑی دھوپ میں جو ملے شجر تو وہیں پہ ڈیرے جما دیے
تھا عجیب میرا بھی ناخدا اسے آزمانا تھا حوصلہ
مجھے ظلمتوں کے سپرد کر کے چراغ سارے بڑھا دیے
نہ ملا مجھے کوئی نقش پا نہ وصال کا ہی سبب بنا
مرے ریزہ ریزہ سے خواب تھے شب نارسا میں جلا دیے
لئے ہاتھ میں وہ کٹے شجر رہے منتظر کہ ملے ثمر
نظر آئے ان کو نہ بال و پر جو تھے گھونسلوں میں دبا دیے
یہ ترا کرم ہے مرے خدا وہ نظر ہوئی ہے مجھے عطا
صف دشمناں میں چھپے ہوئے رخ دوستاں بھی دکھا دیے
کبھی سرد سرد سی دھوپ تھی کبھی تھی تپش جمی برف میں
نئے موسموں کے مزاج نے سبھی رخ فضا کے دکھا دیے
مجھے واہموں نے ڈسا کبھی کبھی چیختی رہیں خواہشیں
میں جو مبتلائے فریب تھی سر دار سپنے سجا دیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.