جو تری بندگی سے ملتا ہے
لطف وہ کم کسی سے ملتا ہے
ہے یہ کافی ترا مرا شجرہ
ایک ہی آدمی سے ملتا ہے
لاکھ برہم ہو وہ مگر یارو
پھر بھی شائستگی سے ملتا ہے
دن کو لگتا ہے دھوپ اس کا مزاج
رات کو چاندنی سے ملتا ہے
اب تو مجھ کو وہ میری رگ رگ میں
دوڑتی سنسنی سے ملتا ہے
ہوں مہ و مہر یا نجوم تمام
وہ کسی نہ کسی سے ملتا ہے
لاکھ بھٹکوں میں ظلمتوں میں مرا
اک سرا روشنی سے ملتا ہے
قابل دید رنگ ہوتے ہیں
جب کبھی سادگی سے ملتا ہے
پہلے میری خوشی سے ملتا تھا
اب وہ اپنی خوشی سے ملتا ہے
شکر صد شکر کہ مرا ظاہر
حالت باطنی سے ملتا ہے
جو مجھے موجب مسرت ہے
درد بھی تو اسی سے ملتا ہے
اس میں ہر رنگ عود آیا ہے
وہ مری شاعری سے ملتا ہے
گلشن دل میں جب بہاریں ہوں
کون پھر بیکلی سے ملتا ہے
ہجر میں بے سکون رہتا ہوں
چین بھی ہجر ہی سے ملتا ہے
اب تو اس زندگی کا ہر لمحہ
لمحۂ آخری سے ملتا ہے
دیکھ کر ظرف پاس آتا ہے
درد کم ہی کسی سے ملتا ہے
سلسلہ ہائے وسعت صحرا
دل کی اس تشنگی سے ملتا ہے
جب سے وہ آنکھ کے فریم میں ہے
جو ہے ملتا اسی سے ملتا ہے
اے محقق سراغ قتل مرا
آخرش زندگی سے ملتا ہے
روز وہ ڈھونڈتے ہیں طاہرؔ کو
روز اس کی گلی سے ملتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.