جو تم نے پوچھا تو حرف الفت بر آیا صاحب ہمارے لب سے
جو تم نے پوچھا تو حرف الفت بر آیا صاحب ہمارے لب سے
سو اس کو سن کر ہوے خفا تم نہ کہتے تھے ہم اسی سبب سے
نہ دیتے ہم تو کبھی دل اپنا نہ ہوتے ہرگز خراب و رسوا
ولے کریں کیا کہ تم نے ہم کو دکھائیں جھمکیں عجب ہی چھب سے
وہ جعد مشکیں جو دن کو دیکھے تو یاد اس کی میں شام ہی سے
یہ پیچ و تاب آ کے دل سے الجھے کہ پھر سحر تک نہ سلجھے شب سے
لگائی فندق جو ہم نے اس کی کلائی پکڑی تو ہنس کے بولا
یہ انگلی پہنچے کی یاں نہ ٹھہری بس آپ رہئے ذرا ادب سے
کہا تھا ہم کچھ کہیں گے تم سے کہا تو ایسا کہ ہم نہ سمجھے
سمجھتے کیوں کر کہ اس نے لب سے سخن نکالا کچھ ایسے ڈھب سے
ہوس تو بوسے کی ہے نہایت پہ کیجئے کیا کہ بس نہیں ہے
جو دسترس ہو تو مثل ساغر لگاویں لب کو ہم ان کے لب سے
کسی نے پوچھا نظیرؔ کو بھی تمہاری محفل میں بار ہوگا
کہا کہ ہوگا وہ بولا کب سے کہا کبھو کا کبھی، نہ اب سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.